سیر و سلوک
حرکت و انتقال علمی کا نام ہے۔ جو مقولہ کیف سے ہے ۔ حرکت یعنی انتقال مکانی کا سیر و سلوک میں کوئی دخل نہیں ہے ۔ اور سیر چار قسم کی ہے ۔
اول۔ سیر الی اللہ بااللہ
وہ حرکت علمیہ ہے جو علم اسفل سے اعلیٰ کی جانب ہو۔ پھر اعلیٰ سے دوسرے اعلیٰ کی طرف تا آنکہ علوم ممکنات طے کرنے کے بعد یہ سب علوم زایل ہو کر واجب تعالیٰ تک رسائی ہو۔ اور اس حالت کو فناء کہتے ہیں ۔
دوم۔ سیر فی اللہ
سیر فی اللہ وہ حرکت علمیہ ہے جو مراتب وجوب اسماء و صفات ، شیون و اعتبارات ، تقدیسات میں ہو حتیٰ کہ ایسے پرتبہ پر منتہی ہو کہ اس کو کسی عبارت سے تعبیر نہ کیا جا سکے۔ نہ وہ قابل اشارہ ہو اور نہ کسی اسم سے موسوم اور نہ کسی بزرگ کے ادراک میں آنے کے قابل اس کا نام بقاء ہے۔
سوم۔ سیر عن اللہ با اللہ
سیر عن اللہ با اللہ وہ حرکت علمیہ ہے جو علم اعلیٰ سے علم اسفل کی طرف ہو۔ پھر اسفل سے دوسرے اسفل کی طرف تا کہ آنکہ مراتب وجوب کے تمام علوم سے نزول الٹی رجعت ہو۔ اس سیر والے کا حال یہ ہے کہ
( ترجمہ: وہ ایسا عارف ہے جو خدا کو خدا کے ساتھ بھول گیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ لوٹا ۔ وہ واصل ایسا کہ مہجور بھی اور قریب ایسا کہ بعید بھی ۔
چہارم۔ سیر فی الا شیاء
چوتھی سیر اشیا کی سیر ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی سیر کے علوم زایل ہو کر علوم اشیاء شیاء خشیاء حاصل ہوں ۔ یہ سیر پہلی سیر کے مقابل ہے ۔ اور تیسری سیر دوسری کے مقابل اور سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ نفس ولایت یعنی فناء و بقا حاصل کرنے کے لیے ہے۔
اور سیر ثالث و اربع مقام دعوت حاصل کرنے کے لیے ہے۔ جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی کامل پیروی کرنے والوں کو بھی ان کے مقام سے حصہ ملتا ہے ۔
Masha Allah Bohat payari maloomat he