قربانی اور اس کے فضائل و مسائل
الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ سیدنا محمد و آلہ و اصحابہ اجمعین اما بعد اعوذباللہ من الشیطن الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم فصل لربک والنحر ( الکوثر آیت 2 )
پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں۔
Qurbani k fazail
عید الاضحیٰ کے دن نمازِ عید الضحیٰ اور قربانی واجب ہے حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو کام آج ( 10 ذوالحجہ کو) ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں گے اور پھر قربانی کریں گے جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔ ( بخاری شریف- حدیث نمبر 5545)
عید کے دن غسل کرنا ، خوشبو لگانا ، مسواک کرنا، ناخن کاٹنا ، اچھے کپڑے پہننا ، فجر کی نماز محلے کی مسجد میں پڑھنا، صدقے کی کثرت کرنا، عید گاہ کو پیدل جانا ، واپسی پر راستہ بدل کر آنا ، عید الاضحیٰ کے دن کچھ کھائے بغیر نماز کے لیے جانا اور اونچی آواز سے تکبیر تشریق کہنا ، خوشی ظاہر کرنا ، نماز کے بعد آپس میں مصافحہ کرنا، گلے ملنا اور مبارک باد دینا مستحب ہے۔ ( ردالمختار – جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 613)
9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ایک بار تکبیر تشریق کہنا واجب اور تین بار کہنا افضل ہے۔ تکبیر تشریق یہ ہے۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد
قربانی اور اس کے فضائل و مسائل
حضو ر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے دن آدمی کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے۔ لہذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ ( ترمذی شریف۔ حدیث نمبر 1532)
جس نے خوش دلی سے اللہ کی رضا کے لیے قربانی کی وہ قربانی اس کے اور جہنم کے درمیان پردہ ہو گی۔ ( المعجم الکبیر حدیث نمبر 10894)
جو روپیہ عید کے دن قربانی کرنے میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ اللہ کو پیارا نہیں ۔ قربانی کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمام گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔ یا د رکھو! قربانی کا جانور قیامت کے روز گوشت اور خون وغیرہ کے ساتھ لایا جائے گا۔ اور 70 گنا زیادہ وزنی کر کے نیکیوں کے پلڑے میں رکھا جائے گا۔ ( الترغیب و الترہیب ۔ حدیث نمبر 1662)
قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے قربانی کے ہر بال اور اس کی اون کے ہر ریشے کے بدلے تمہارے لیے نیکی ہے۔ ( ابن ماجہ شریف ۔ حدیث نمبر 913)
حضور ﷺ نے مدینہ طیبہ میں دس سال قیام فرمایا۔ اس دوران آپ ہر سال قربانی کرتے رہے۔ ( ترمذی شریف۔ حدیث نمبر 1549)
حضور اکرم ﷺ نے قربانی کے جانور کو ذبح کیا اور فرمایا ! اے اللہ اس قربانی کو محمد ﷺ، آلِ محمدﷺ اور امتِ محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما۔ ( مسلم شریف ۔ حدیث نمبر 5091)
رسول اکرم ﷺ ہر سال دو مینڈھے قربانی کرتے تھے ۔ ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے تھے پوچھنے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! کہ مجھے حضر ت محمد ﷺ نے وصیت فرمائی ہوئی ہے کہ میں حضور ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں لہٰذا یہ دوسری قربانی میں حضور ﷺ کی طرف سے کرتا ہوں۔ ( ترمذی شریف۔ حدیث نمبر 34-1533 ، ابن ماجہ 906-907)
نوٹ۔ اس سے معلوم ہو ا کے زندہ یا فوت شدہ لوگوں کو ایصالِ ثواب کرنا سنت ہے۔
جس نے ذو الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کرے اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ ( مسلم شریف – حدیث نمبر 5118)
مندرجہ ذیل قسم کے جانور قربانی کرنے کے لیے درست نہیں
1۔ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ 2۔ بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔ 3 ۔ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو ۔ 4۔ ایسا لاغر کہ جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو۔ 5۔ کان کٹے ( جڑ تک ) ہوئے اور سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے ۔ ( ترمذی شریف۔ حدیث نمبر 1536، نسائی شریف۔ حدیث نمبر 4389)
قربانی کس پر واجب ہے ؟
قربانی ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے جو بالغ، مقیم اور حاجات اصلیہ کے علاوہ اتنے سونے، چاندی یا دیگر مال و سامان کا مالک ہو جس کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت ( موجودہ ریٹ)10-06-2023 کے مطابق تقریباََ روپے113,670 ہے. نوٹ فرما لیں جس وقت بھی حساب کرنا مقصود ہو اس دن کا ریٹ چیک کر لیں شکریہ) کے برابر ہو۔ ( شامی جلد نمبر 2۔ صفحہ 37، رضویہ ۔ جلد 4 صفحہ نمبر 410-417 )
حاجات اصلیہ !
رہنے کا مکان اگرچہ کرائے کا ہو ، گرمی اور سردی کا ایک ایک بستر ، پہننے کے تین جوڑے ایک کام کاج والا ایک عام پہننے کے لئے اور ایک جمعہ و عیدین کے لیے اس سے اضافہ جتنے بھی مکان ، بستر اور کپڑے ہوں اگر وہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے ہوں تو قربانی واجب ہے۔ اسی طرح گھر میں خانہ داری کے ضروری سامان اور سواری کے علاوہ جتنا بھی سامان ہو اگر وہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو قربانی واجب ہے۔ جہیز کا سامان عورتوں کی ملکیت ہوتا ہے اگر وہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس عورت پر قربانی واجب ہو گی۔ اگر اس کے پاس پیسے نہ ہوں تو قرض لے کر یا سامان بیچ کر قربانی کرے ۔ اسی طرح وہ صاحب نصاب جس کے پاس وقتی طور پیسے نہ ہوں اس کے لیے بھی قرض لے کر یا سامان بیچ کر قربانی کرنا واجب ہے ۔ (عالمگیری جلد نمبر 5 صفحہ 293۔ رضویہ جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 393)
عموماََ دیکھا گیا ہے کہ سارے گھر میں صرف ایک فرد ہی قربانی کرتا ہے حالانکہ گھر کے کئی مردوں اور عورتوں پر قربانی واجب ہوتی ہے ۔ صاحب نصاب باپ پر الگ ، والدہ پر الگ، بیٹے پر الگ اور بہو پر الگ قربانی واجب ہے۔ بعض لوگ فوت شدہ ماں باپ کی طرف سے قربانی کرتے ہیں لیکن اپنی طرف سے نہیں کرتے یہ درست نہیں پہلے اپنی طرف سے قربانی کریں اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کے لیے قربانی کریں تو درست ہے ۔
نوٹ ۔ قربانی کے نصاب میں حاجات اصلیہ کا دائرہ بہت محدود ہے جبکہ زکوٰۃ کے نصاب میں حاجات اصلیہ کا دائرہ بہت وسیع ہے بہت لوگ اس مغالطے میں ہیں کہ زکوٰۃ اور قربانی کے نصاب میں حاجات اصلیہ ایک جیسی ہیں یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔
اور اسی طرح ایک مغالطہ قرض کے متعلقہ بھی ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ مقروض آدمی پر قربانی واجب نہیں چاہے اس کی ملکیت میں کتنا ہی سامان و جائیداد ہو ۔ یہ بھی غلط ہے مثلاََ ایک آدمی پانچ لاکھ روپے کا مقروض ہے لیکن اس کی دکان میں چھ لاکھ کا سامان پڑا ہے یا اس کی ملکیت میں چھ لاکھ کے ایک یا دو پلاٹ ہیں ۔ اس شخص پر قربانی واجب ہے کیونکہ یہ شخص خود ساختہ مقروض ہے۔ لیکن اگر قرضہ اتنا ہے کہ وہ اپنی حاجات اصلیہ سے زائد ملکیت سامان اور جائیداد کو بیچ کر اگر قرض ادا کرے تو اس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر مال، سامان یا روپیہ نہ بچے تو اس پر قربانی واجب نہیں ۔ اگر کرے تو ثواب ہے۔ عالمگیری جلد نمبر 5 صفحہ 292)
عموماََ دیکھا گیا ہے کہ سارے گھر میں صرف ایک فرد ہی قربانی کرتا ہے حالانکہ گھر کے کئی مردوں اور عورتوں پر قربانی واجب ہوتی ہے ۔ صاحب نصاب باپ پر الگ ، والدہ پر الگ، بیٹے پر الگ اور بہو پر الگ قربانی واجب ہے۔ بعض لوگ فوت شدہ ماں باپ کی طرف سے قربانی کرتے ہیں لیکن اپنی طرف سے نہیں کرتے یہ درست نہیں پہلے اپنی طرف سے قربانی کریں اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کے لیے قربانی کریں تو درست ہے ۔
نوٹ ۔ قربانی کے نصاب میں حاجات اصلیہ کا دائرہ بہت محدود ہے جبکہ زکوٰۃ کے نصاب میں حاجات اصلیہ کا دائرہ بہت وسیع ہے بہت لوگ اس مغالطے میں ہیں کہ زکوٰۃ اور قربانی کے نصاب میں حاجات اصلیہ ایک جیسی ہیں یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔
اور اسی طرح ایک مغالطہ قرض کے متعلقہ بھی ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ مقروض آدمی پر قربانی واجب نہیں چاہے اس کی ملکیت میں کتنا ہی سامان و جائیداد ہو ۔ یہ بھی غلط ہے مثلاََ ایک آدمی پانچ لاکھ روپے کا مقروض ہے لیکن اس کی دکان میں چھ لاکھ کا سامان پڑا ہے یا اس کی ملکیت میں چھ لاکھ کے ایک یا دو پلاٹ ہیں ۔ اس شخص پر قربانی واجب ہے کیونکہ یہ شخص خود ساختہ مقروض ہے۔ لیکن اگر قرضہ اتنا ہے کہ وہ اپنی حاجات اصلیہ سے زائد ملکیت سامان اور جائیداد کو بیچ کر اگر قرض ادا کرے تو اس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر مال، سامان یا روپیہ نہ بچے تو اس پر قربانی واجب نہیں ۔ اگر کرے تو ثواب ہے۔ عالمگیری جلد نمبر 5 صفحہ 292)
قربانی کے جانور کی عمر
بکرا، بکری ایک سال کا۔ گائے، بچھڑا، بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہےاس سے کم عمر جانور کی قربانی نہیں ہوتی۔ دوندا ہونا شرط نہیں عمر کا پورا ہونا ضروری ہے اور سال سے مراد قمری سال ہے ۔ مگر دنبہ یا بھیڑ کا بچہ اگر چھ ماہ کا اتنا موٹا ہو کہ سال کا معلوم ہو تو اس کی قربانی بھی درست ہے۔ قربانی کا جانور خوبصورت موٹا تازہ اور قیمت کے اعتبار سے بہتر ہونا چاہیے ۔ جانور عیب دار نہیں ہونا چاہیے۔ قربانی کے دن قربانی کا جانور ذبح کرنا ہی واجب ہے اس کی قیمت صدقہ کر دینے سے قربانی نہ ہو گی۔
نوٹ : بعض لوگ کسی تنظیم یا ویلفیئر سوسائٹی کو پیسے دے دیتے ہیں اور خود جانور لانے اور قربانی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ ایک غیر محتاط اور حکم قربانی کی روح کے منافی رویہ ہے۔ قربانی کے جانور کو لانے،ذبح کرنے اور پھرگوشت تقسیم کرنے کو ایک بوجھ سمجھنا بری بات ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا قربانی خوش دلی سے کیا کرو کیونکہ قربانیاں تمہارے اور جہنم کے درمیان پردہ ہوں گی۔ ( طبرانی فی الکبیر۔ حدیث نمبر 2736)
قربانی کا وقت
دسویں ذوالحجۃ کو نماز عید ادا کرنے کے بعد بارھویں ذوالحجۃ کے غروب آفتاب تک قربانی کا وقت ہے۔ قربانی کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے کہ نماز عید کے بعد کی جائے اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی تو قربانی نہ ہو گی۔ شہر میں اگر متعدد جگہ نماز عید ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز ہو چکنے کے بعد قربانی کر سکتے ہیں ۔ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے پھر دوسرے دن ، پھر تیسرے دن ۔ لیکن فی زمانہ تیسرے دن تک قربانی کو مؤ خر نہیں کرنا چاہیے ۔
قربانی کرنے کا طریقہ
حضرت انس اور حضرت جابر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے دو مینڈھے چتکبرے سینگوں والے اور خصی کیے ہوئے قربانی کیے۔ ان کا منہ قبلہ کی طرف کر کے لٹایا اور پڑھا۔
ترجمہ : میں نے اپنا رخ یکسوئی سے اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا مرنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں اے اللہ تیری توفیق سے ، تیرے لیے بسم اللہ اللہ اکبر ۔ اپنا پاؤں مبارک ان کے پہلو پر رکھا اور \” بسم اللہ اللہ اکبر \” پڑھ کر اپنے دست مبارک سے ذبح کیا ۔ ( بخاری شریف ۔ حدیث نمبر 5565، ابو داؤد شریف ۔ حدیث نمبر 1032)
یہی ذبح کرنے کا بہترین طریقہ ہے ۔ اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے لیکن اگر صحیح ذبح نہ کر سکتا ہو تو دوسرے سے بھی ذبح کروانا صحیح ہے۔ ذبح کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ذبح کرنے والا بد عقیدہ نہ ہو ورنہ قربانی نہ ہو گی۔ اور اس بات کا خیا ل رکھنا بھی ضروری ہے کہ تکبیر صحیح، صحیح پڑھی جائے اور جانور کو بے جا تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ بعض لوگ جلدی کرنے کے لیے جانور کا منکا توڑ کر حرام مغز کاٹ دیتے ہیں یا جانور کی سانسیں ابھی باقی ہوتی ہیں کہ اس کی کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جانور کو بے جا تکلیف پہنچانا ہے۔
اس سے بچنا چاہیے۔ جب جانور ٹھنڈا ہو جائے تو اس کی کھال اتار کر گوشت بنائیں اور پھر سارا گوشت باہم ملائیں۔ پھر اس کے تین حصے کر لیں ایک حصہ اپنے لیے ایک حصہ اپنے خویش و اقارب کے لیے اور ایک حصہ عام مسلمانوں کے لیے تقسیم کریں۔ گوشت کے اچھے حصے اپنے لیے رکھ لینا اور بقیہ تقسیم کر دینا یا دوسروں کے ہاں سے آیا ہوا گوشت آگے تقسیم کردینااور اپنی قربانی کا گوشت فریزر کے حوالے کر دینے کی بجائے اگر تقسیم کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ قربانی کر لینے کے بعد اپنے ناخن اور بال وغیرہ ترشوا لیں۔ قربانی کا گوشت اور چمڑا یا کوئی اور حصہ ذبح کرنے کی اجرت میں دینا یا بیچنا جائز نہیں ۔ چمڑا بیچ کر صدقہ کر دیں تو جائز ہے۔ قربانی کا گوشت یا چمڑا کسی غیر مسلم یا بد عقیدہ ( رسول پاک ﷺ کی تعظیم کا انکار کرنے والے ، گستاخان صحابہ ، گستاخان اہل بیت ، گستاخان اولیاء) کو دینا جائز نہیں۔ اسی طرح ان ویلفئیر سوسائٹیوں اور تنظیموں کو قربانی کی کھالیں دینا درست نہیں جو غیر مسلموں اور بد عقیدہ لوگوں پر خرچ کرتی ہیں ۔
نوٹ: اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالتے وقت یہ تسلی کر لینا ضروری ہے کہ تمام حصہ دار ہم مسلک ہوں اور ان میں کوئی بد عقیدہ نہ ہو ورنہ قربانی نہ ہو گی۔ ( فتاویٰ نوریہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 149 )
انتباہ: اونٹ کو ذبح نہیں بلکہ نحر کیا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے سینہ میں گلے کی انتہا پر نیزہ یا تیز نوک والی چھری ماریں ۔ سنت اسی طرح ہے اسے نحر کہتے ہیں اگرچہ اونٹ کو ذبح کرنا مکروہ ہے مگر حلال ذبح کرنے سے بھی ہو جائے گا۔ اگر ذبح کریں تو گلے سے ایک ہی جگہ سے ذبح کریں۔ یہ جو مشہور ہے کہ اونٹ کو گلے سے تین جگہ سے ذبح کرنا چاہیے یہ محض غلط ہے خلاف سنت ہے، اذیت دینا ہے اور مکروہ ہے۔