نیت مراقبہ معیت
فیض می آید از ذات بیچون کہ ھمراہ است من وبھمراہ جمیع ممکنات بلکہ ہمراہ ہر ذرہ از ذرات ممکنات بھمراہی بیچون بمفھوم این آیۃ کریمہ \”وہو معکم اینما کنتم\” ۔ بلطائف خمسہ عالم امر من بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیھم اجمعین ۔ توقف روز
ترجمہ: ذات حق جو آیۃ کریمہ \”وہو معکم اینما کنتم\” کے مفہوم کے مطابق میرے اور تمام ممکنات بلکہ ذرات ممکنات میں سے ہر ذرہ کے ہمراہ ہے سے پیران کبار رحمتہ اللہ علیہ اجمعین کے واسطہ سے میرے لطائف خمسہ عالم ِ امر تک فیض آتا ہے ۔
نیت مراقبہ اقربیت
فیض می آید از ذات ِ بیچون کہ اصل اسماء و صفات است کہ نزدیک تر است از من بمن و از رگ گردن من بمن بہ نزدیکی بلا کیف بمفہوم ایں آیۃ کریمۃ \”و نحن اقرب الیہ من حبل الورید \” بلطیفہ نفسی من با شرکت لطائف خمسہ عالم امر من بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔
ترجمہ: ذات حق کی اصل اسما ء و صفات ہے آیۃ کریمۃ \”و نحن اقرب الیہ من حبل الورید \” کے مطابق بلا کیف مجھ سے میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے سے بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین میرے لطائف خمسہ عالم امر جمیع میرے لطیفہ نفسی میں فیض آتا ہے ۔
یہ مراقبہ آیۃ کریمۃ \”و نحن اقرب الیہ من حبل الورید \” سے لیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ شہ رگ سے بھی قریب تر ہے ۔ اور میرے لطائف خمسہ عالم امر اس کے مورد فیض اور فیض کا منشا ء دائرے اولیٰ ولایت کبریٰ ہے اور یہی ولایت ولایت صغریٰ کی اصل ہے ۔
اقربیت کے معنی
اقربیت کے معنی کہ ظل کی اصل ظل کے ساتھ بہ نسبت ظل کے زیادہ نزدیک ہے یعنی ( ظل خود اپنے آپ سے اتنا قریب نہیں ہے جتنا اس کی اصل اس سے قریب ہے ) جو ظل کی اصل ہے اس کو ظل کے ساتھ اتنا قرب ہے کہ نہ خود ظل اپنے سے اتنا قریب ہے اور نہ ظل کی اصل ظل سے اتنا قرب رکھتی ہے ) اور یہی حال ہے اصل ہے اصل کی اصل کی اصلی کا کہ وہ اپنے ما بعد کی بہ نسبت ظل سے زیادہ قریب ہے .
جب یہ بات ہے تو اب سمجھ لیجئے کہ ذات واجب تعالیٰ جل جلالہ ممکن کے ساتھ بہ نسبت شیونات کے زیادہ قریب ہے اور شیونات کو ممکن کے ساتھ بہ نسبت صفات کے زیادہ قریب ہے اور صفات بہ نسبت ظلال صفات کے ممکن سے زیادہ نزدیک ہیں اور ظلال صفات ممکن کے ساتھ بہ نسبت ممکن کے زیادہ قریب ہے ۔ یہاں کے حالات بے رنگ اور بے رنگ اور بے مزہ ہیں ۔ جب نفس کے حالات قوت پکڑ جاتے ہیں ۔ تو حالات قلبی فراموش ہو جاتے ہیں اور اس مراقبہ کے تمام ہونے کی علامت یہی ہے ۔