نیت مراقبہ کمالات نبوت
فیض می آید از ذات بیچون کہ منشاء کمالات نبوت اس بہ عنصر خاک من بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔ توقف روز۔
ترجمہ
ذات بیچون کہ منشاء کمالات نبوت ہے سے پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے واسطہ سے فیض میرے عنصر خاک میں آتا ہے۔
یہ مراقبہ سر اسم الباطن کا نقطہ عروج ہےاور تجلیٰ دائمی کا درجہ اول ہے۔ اسماء و صفات سے گزر کر سالک ذات میں سیر کرتا ہے۔ اور اس مقام کو کمالات نبوت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ کمالات نبوت کا عنصر خاک پر جو شے عجیب یعنی مظہر ذات الٰہی ہے نزع کے وقت سختی کا سبب یہی ہوتا ہے۔
روح اپنے محبوب کی جائے ظہور سے مفارقت کرنا نہیں چاہتی ۔ اس عنصر میں نیستی محض اور دوسری جانب متجلی میں ہستی محض ہے۔ \” الاشیا ء با ضدادھا\” یہاں حضور بے جہت حاصل ہوتا ہے اور نگرانی اور بے قراری بے تابی و بے شوق سب رخصت ہو جاتا ہے اور یقین کامل راسخ ہو جاتا ہے ۔ اس مقام میں حال و مقام و معرفت کوتاہ ہیں \” لا تدر کہ الا بصارالایۃ\” اس پر گواہ ہے۔
اتصالے بے کیف و بے قیاس
ہست رب الناس رابا جان ناس
یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے خاص بندوں سے جو اتصال ہے وہ کیفیت اور قیاس دونوں سے باہر ہے ۔ یہاں وصول ہے حصول نہیں ۔ وصول سے مراد اللہ تعالیٰ کے عشق کے غلبہ میں اپنے آپ کو فنا کرنا ہے۔ یہاں موحد کی زبان سے توحید وجودی یا شہودی کی صدا نہیں نکلے گی۔ کیونکہ ان دونوں کا تعلق مقام اولیاء سے ہے اور یہ مقام انبیاء کا ہے۔ یہاں نسبت باطن کی کمالات وسعت بے کیفی اور ریاس و حرمان کے ساتھ اتباع شرع نصیب ہوتا ہے۔
خوب یاد رکھیے کہ یہ مقام ِ انبیاء ہے ۔ یہ بغیر انبیا ء کی اتباع کے حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اس میں اقسام توحید سے کوئی سروکار نہیں رہتا کہ اس کا تعلق مقام ولایت سے ہے۔ مراقبات میں اور شرح مراقبات کے اندر بعض مشکل اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں ۔
اُن کا حل اور وضاحت حصہ دوم میں کی جائے گی انشاءاللہ۔