مقامات عشرہ، جذب و سلوک میں فرق

Loading

مقامات عشرہ

مقام ولایت تک پہنچنا بغیر مقامات عشرہ کے حصول کے متصور نہیں وہ مقامات عشرہ یہ ہیں ۔

توبہ

انابت

زہد

قناعت

ورع

صبر

شکر

توکل

تسلیم

رضا

ان مقامات کا حصول خواہ بالا جمال ہو، جیسا کہ اس طریقہ عالیہ نقشبندیہ شریف میں ہوتا ہے کہ اس طریقہ میں نسبت اجمالی جذبی ہے۔ اور یا بالتفصیل ہو۔ جیسا کہ دوسرے سلسلوں میں ہوتا ہے کہ وہاں سیر تفصیلی اور سلوکی ہے ۔

جذب و سلوک میں فرق

جذب و سلوک میں بڑا فرق ہے ۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ معارف لدینہ میں ایک معرفت میں اس کو بیان فرمایا ۔ ( وہو ہٰذا )

(مجذوب و سالک کی دو قسمیں ہیں ۔ سالک مجذوب اور مجذوب سالک ۔ سالک مجذوب وہ ہے جس کو سلوک کی انتہا میں جذبہ نصیب ہو اور مجذوب سالک وہ ہے جس کے سلوک کی ابتداء جذبہ سے ہو۔ )

سالک مجذوب کو معرفت میں مجذوب سالک پر فوقیت اور مزیت حاصل ہے اور محبت میں اس کے برعکس معاملہ ہے کہ مجذوب سالک کو سالک مجذوب پر تفوق ہے وجہ یہ ہے مجذوب سالک کا مربی اول سے آخر تک اللہ تعالیٰ ہے کہ محبت خاص کے ساتھ اس کی تربیت فرما کر عنایت کاملہ سے اپنی بارگاہ قدس کی طرف اس کو کھینچتا ہے۔ پھر اس معرفت سے مراد وہ معرفت ہے جو تجلیات افعالیہ یعنی اشیاء کونیہ اور صفات اضافیہ الٰہیہ کی معرفت کے ساتھ متعلق ہے لیکن وہ معرفت جو ذات حق تعالیٰ کے ساتھ متعلق ہے ، جس کو جہل سے تعبیر کرتے ہیں ، اور وہ معرفت جس کا تعلق صفات سلبیہ سے ہے جو حیرت پر مشتمل ہے ، اور وہ معرفت جو صفات موجود سے متعلق ہے اور وہ جو شیونات ذاتیہ اعتبار سے تعلق رکھتی ہے۔

پس اس میں مجذوب سالک حق ہے اور ان کی تفاصیل میں سالک مجذوب احق ہے۔ کیونکہ اس نے ان مقاموں کو تفصیلا قطع کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ اس سے گزرتا گیا ہے ۔ ہر مقام کے دقائق اسے جس تفصیل کے ساتھ معلوم ہیں مجذوب سالک کو اس طرح معلوم نہیں کیونکہ یہ ان مقاموں کو بالا جمال پہنچا ہے ۔ اور ہر مقام کا خلاصہ ہی اس نے حاصل کیا ہے۔ پس ان مقامات میں سالک مجذوب ظاہر اور صورت کے اعتبار سے قائم ہوتا ہے اور مجذوب سالک مشاہدہ اور خلاصہ کے اعتبار سے اکمل ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ صورت و ظاہر کو دیکھنے والے عوام نے گمان کیا ہے کہ اول شخص ( سالک مجذوب) ان مقامات عشرہ میں دوسرے ( مجذوب سالک ) کی نسبت زیادہ کامل و اکمل ہے اور یہ نہیں جانتے کہ مجذوب سالک میں وجود رغبت زہد کے منافی نہیں ہے۔ اور تعلق اسباب توکل کے خلاف نہیں ہے اور کراہیت و ناخوشی کا پایا جانا رضائے  تام کا مانع نہیں ہے ۔ کیوں کہ اس رغبت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اسباب کے ساتھ اس کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔

اسی طرح کراہت بھی اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ یہ اوصاف اس میں خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ۔ دنیا میں اس کو کسی چیز سے رغبت ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہ اس کو کسی سوا کسی دوسری غرض کے لیے ہے اور اگر نفس کے اشارے سے بھی وہ رغبت کرتا ہے تو چونکہ اس کا نفس حق تعالیٰ میں فنا ہو چکا ہے اس لیے اس کی یہ رغبت حقیقت میں اس کے پروردگار کے لیے ہے، نہ نفس کے لیے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *