نوٹ : معزز قارئین اس ویب سائیٹ پہ باقاعدگی سے مواد کو اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے نیت اصول مراقبات مکمل ہو چکی ہیں بقیہ مراقبات کی نیت بھی جلد پوسٹ کی جائے گی۔ باقاعدگی سے وزٹ کرتے رہیں۔ آگے دوستوں میں شئیر کریں ۔ شکریہ
نیت مراقبہ اصل قلب :
الٰہی قلب من بمقابل قلب نبی علیہ السلام آن فیض تجلائے صفات فعلیہ خود کہ از قلب نبی علیہ السلام بقلب آدم علیہ السلام رسانیدہ بقلب من نیز برسانی بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔ توقف روز
ترجمہ : الٰہی میرا لطیفہ قلب نبی علیہ السلام کے لطیفہ قلب کے بلمقابل اپنی صفات فعلیہ کے فیض کا وہ تجلٰی جونبی کریم علیہ السلام کے لطیفہ قلب سے آدم علیہ السلام کے لطیفہ قلب تک تو نے پہنچایا ۔ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے طفیل میرے لطیفہ قلب تک پہنچا۔
سالک کو چاہیے کہ اپنے لطیفہ قلب کو جناب رسول کریم ﷺ کے سامنے تصور کرلے کہ اے اللہ تو نے تجلیات افعالیہ الٰہیہ کا جو فیض حضور ﷺ کے لطیفہ قلب سے حضرت آدم علیہ السلام کے لطیفہ قلب میں پہنچایا۔ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا صدقہ یہ فیض میرے لطیفہ قلب میں پہنچا ۔ اس مراقبہ کے دوران مراقب تما م پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں حضرت محمد ﷺ تک جو فیض کا ذریعہ ہیں تصور میں رکھے ۔ جو طالب حضرت آدم علیہ السلام کی ولایت حاصل کر لیتا ہے اس کو اس ذات (اللہ) سے شرف اور سرور حاصل ہوتا ہے ۔ پیران کامل و مکمل کے لطائف سے اس کا لطیفہ قلب سیراب ہوتا ہے اور وہ اس لطیفہ کے کمالات حاصل کرنے کے بعد صاحب لفظ ہو جاتا ہے ۔ یعنی وہ جو کچھ منہ سے نکالتا ہے اللہ تعالیٰ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین اور نبی کریم ﷺکے صدقہ اور اپنے فضل و کرم سے پورا فرماتا ہے اور اس کے وساوس اور خطرات شیطانی دفع ہوجاتے ہیں ۔
اس کا قلب سلیم ہو جاتا ہے ۔ وہ تلوین سے نکل کر تمکین سے فیض یاب ہوتا ہے اور اس لطیفہ میں اس کو فنا و بقا حاصل ہوتی ہے ۔ طالب کو چاہیے کہ قلب کی حفاظت کرے اور ماسوا اللہ کے غیر کو دل سے نکال دے اور پیر کامل و مکمل کے رابطے کو قطع نہ کرے ۔ ہمیشہ ذکر و فکر میں رہے تاکہ جو گوشت کا مضغہ بائیں پستان کے نیچے داخل بہ سینہ ہے اور جو لطیفہ قلب کی جائے امانت ہے پاک اور صاف ہو۔ کیونکہ ظاہری ، باطنی ، روحانی اور جسمانی پاکیزگی قلب کی اصلاح سے ہوتی ہے ۔ کیونکہ جس کا قلب سلیم اور صالح ہو جائے اس کا سارا وجود پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ لطیفہ قلب کی ولایت حضرت آدم علیہ السلام کے زیر قدم ہے ۔ اس لیے اس کو ولایت آدموی کہتے ہیں ۔ سالک جب اس ولایت کو حاصل کر لیتا ہے اس وقت ولایت آدموی حاصل ہو جاتی ہے ۔ یہ ولایت کا پہلا درجہ ہے ولایت آدموی والا فقیر ہر وقت توبہ میں مشغول اور ذات باری تعالیٰ سے عجز و انکساری اور معافی اور توبہ کا طلب گار رہتا ہے ۔ اپنی صفات رذیلہ کو اوصاف حمیدہ میں بدلنے کی کوشش میں رہتا ہے ۔ ذرا سی غلطی ہو جائے فوراً توبہ و معافی میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ تمام افعال میں اسے حق کی جانب سے تجلیات اور انوارات نظر آتے ہیں ۔ جمیع افعال و اعمال میں ذات حق کو وسیلہ حقیقی جانتا ہے ۔ یعنی تجلیات افعالیہ الٰہیہ اس کے ہر فعل و عمل سے ظاہر ہو تی ہے ۔
نیت مراقبہ اصل روح
الٰہی روح من بمقابل روح نبی علیہ السلام آں فیض تجلائے صفات ثمانیہ ، ثبوتیہ حقیقیہ خود کہ از روح نبی علیہ السلام بروح ابراہیم علیہ السلام و نوح علیہ السلام رسانیدہ بروح من نیز برسانی بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔ توقف روز
ترجمہ : الٰہی میری روح نبی علیہ السلام کی روح کے بالمقابل ہے اپنی صفات ثمانیہ ، ثبوتیہ ، حقیقیہ کے فیض کا وہ تجلیٰ جو تو نے نبی علیہ السلام کے لطیفہ روح سے حضرت ابراہیم علیہ السلام و نوح علیہ السلام کے لطیفہ روح تک پہنچایا ۔ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے طفیل ، میرے لطیفہ روح تک پہنچا ئیے ۔
جو سالک نوح علیہ السلام و ابراہیمی علیہ السلام ولایت کا حامل ہوتا ہے ۔ وہ لطیفہ روح کے تمام کمالات اور درجات حاصل کر لیتا ہے کیونکہ لطیفہ روح کی ولایت حضرات ابراہیم علیہ السلام و نوح علیہ السلام کے زیر قدم ہے ۔ اس کا فقیر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے ۔ اپنی کشتی کو اللہ کہ بھروسے پر چھوڑ دیتا ہے ۔ اس طرح حالات و واقعات کا مقابلہ کرتے ہوئے نفس اور شیطان سے جہاد کرتے ہوئے اپنے مقصود کی کشتی کو کنارے لگاتا ہے ۔ وہ اس مشرب کا فقیر ابراہیم علیہ السلام کی طرح جذبہ رکھتا ہے ۔ اور اپنے مخالفین یعنی نفس اور شیطان لعین کی فریب کاریوں اور مکاریوں سے بچ کر \”انی وجھت وجھی للذی\” کا اعلان کرتے ہوئے ماسوا اللہ کے منہ موڑ کر ہر وقت یاد خدا میں مشغول رہتا ہے ۔ دشمنان اسلام کی جلائی ہوئی آتش اس کے لیے گلزار ابراہیمی بن جاتی ہے ۔
اس مشرب والے میں توکل اور عشق الٰہی کا فیض آتا ہے اور اس میں صفات ثبوتیہ الٰہیہ کا فیض آتا ہے ۔ اور وہ اپنی تمام صفات سننے ، دیکھنے ، بولنے ،اور سوچنےکی صفات حق سبحانہ تعالیٰ کی صفات دیکھتا ہے ۔ انسان کی صفات کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے ثابت جانتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرے صفات کمالیہ کچھ بھی نہیں یہ محض اللہ تعالیٰ کی صفات کی وجہ سے قائم دائم ہیں ۔ غرض کہ تمام مخلوق کی صفات میں صفات ثبوتیہ کی جلوہ گری دیکھتا ہے اور انہی سے ان کا وجود قائم دائم سمجھتا ہے ۔ یہ ولایت کا دوسرا درجہ ہے ۔
نیت مراقبہ اصل سر
الٰھی سر من بمقابل سر نبی علیہ السلام ۔ آن فیض تجلائے شیونات ذاتیہ خود کہ از سر نبی علیہ السلام بہ سر موسیٰ علیہ السلام رسانیدہ بہ سر من نیز برسانی بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔ توقف روز۔
ترجمہ : الٰہی میرا لطیفہ سر نبی علیہ السلام کے لطیفہ سر کے بالمقابل ہے ۔ اپنی شیونات ذاتیہ کے فیض کا وہ تجلٰی جو تو نے نبی علیہ السلام کے لطیفہ سر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لطیفہ سر تک پہنچایا ۔ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین واسطے سے میرے لطیفہ سر تک پہنچا ۔ یعنی اپنے لطیفہ سر کو حضور اقدس ﷺ کے لطیفہ سر کے سامنے تصور کرے ۔ ہر مراقبہ کی نیت سے پہلے تصور کو مضبوط کرنا ضروری ہے ۔ لطیفہ سر سے مراد وہ راز ہے جو روح انسانی کا مبداء ہے ۔ جس کو عالم لاہوت بھی کہتے ہیں ۔ عالم لاہوت سے مراد روح ( محمدی ﷺ) ہے ۔ یہ ایک لطیف کیفیت ہے ۔ یہاں سالک پر بے شعوری میں ایسے احوال کا ورود ہوتا ہے جو واقعات مصرحہ لطائف قلب و روح سے ممتاز ترین ہوتے ہیں اس کا اندازہ وہی سالک کر سکتا ہے جس پر یہ خیالات گزرے ہوں ۔ یہاں سالک کو بسبب عشق الٰہی معرفت حق حاصل ہوتی ہے ۔
نیت مراقبہ اصل خفی
الٰہی خفی من بمقابل خفی نبی علیہ السلام ۔ آں فیض تجلائے صفات سلبیہ خود کہ از خفی نبی علیہ السلام بہ خفی عیسیٰ علیہ السلام رسانیدہ بہ خفی من نیز برسانی بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔ توقف روز
ترجمہ : الٰہی میرا لطیفہ خفی نبی علیہ السلام کے لطیفہ خفی کے بالمقابل ہے اپنی صفات سلبیہ کے فیض کا وہ تجلیٰ جو تو نے نبی علیہ السلام کے خفی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچایا پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے واسطہ سے میرے خفی تک پہنچا ۔
اپنے لطیفہ خفی کو حضور اکرم ﷺ کے روبرو خیا کرے ۔اس لطیفہ خفی کی جب تکمیل ہو جاتی ہے ۔ تو سالک اس لطیفہ خفی کے ذکر کی وجہ سے وہ قرب کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔ جس کی کراماً کاتبین کو خبر نہیں ہوتی اور روز حشر میں ذکر خفی کا کرنے والا بہت اعلیٰ مقام پر فائز ہو گا ۔ اس لطیفہ میں صاحب کمال فقیر ولایت کا چوتھا درجہ حاصل کر لیتا ہے ۔ وہ عبادت ، ریاضت اور مجاہدہ سے کبھی نہیں تھکتا ۔ اس درجہ پر پہنچنے والے فقیر کی یہ علامت ہوتی ہے وہ اپنی ذات کی نسبت دوسروں کو فوقیت دیتا ہے ۔ خودرنج اُٹھا کر دوسروں کی تکلیفیں دور کرتا ہے ۔ اپنے آپ کو عجز و انکساری میں رکھتا ہے (لطیفہ خفی سے مراد نور محمدی ﷺ سے جس کو عالم ہاہوت بھی کہتے ہیں سالک پر جب اس لطیفے کی کیفیات طاری ہوتی ہیں تو وہ معائنہ ذات کی بدولت و اصل الی اللہ ہوتا ہے ۔
نیت مراقبہ اصل اخفیٰ
الٰہی اخفائے من بمقابل اخفائے نبی علیہ السلام آن فیض تجلائے شان جامع خود کہ بہ اخفائے نبی علیہ السلام رسانیدہ بہ اخفائے من نیز برسانی بواسطہ پیران کبار رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔
ترجمہ: الٰہی میرا اخفیٰ نبی علیہ السلام کے اخفیٰ کے بالمقابل اپنی شان جامع کے فیض کا وہ تجلیٰ جو تو نے نبی علیہ السلام تک پہنچایا ۔ پیران کبار رحمتہ علیہم اجمعین کے واسطے سے میرے اخفیٰ تک پہنچا۔
لطیفہ اخفیٰ ولایت محمدی ﷺ نعمت عظمیٰ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو یہ نعمت عطا ہو جائے ۔ جس طرح سرکار ﷺ کی ذات والہ صفات تمام انبیاء و مرسلین سے افضل ہے ۔ اسی طرح لطیفہ اخفیٰ کی ولایت کا فیض بھی ارفع و اعلیٰ ہے ۔ چونکہ لطیفہ اخفیٰ زیر قدم سید المرسلین ﷺ ہے اس لیے اس لطیفہ کی تکمیل کے بعد جو کمالات سالک کو حاصل ہوتے ہیں وہ بہت ہی بلند و بالا ہیں ۔ محمدی ﷺ ولایت والے فقیر کا مقام بہت بلند ہوتا ہے ۔ اطاعت رسول ﷺ اور اطاعت الٰہی کا مظہر با کمال ہوتا ہے ۔
خلق محمدی صدق اخلاص اللّٰہیت اس میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ اس ولایت والے فقیر کا رابطہ اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ ذاتی ہوتا ہے \” آنچہ خوبان ھمہ دارند تو تنھا داری \” کا مصداق ہوتا ہے ۔ شریعت کی پاسبانی اور پاس داری کرتا ہے تجلیات دائمی حاصل ہوتی ہیں اور اگر کمال حاصل کر لے اور شیخ کامل و مکمل کی توجہ خاص اور محبت خاص کی بدولت مجلس محمدی ﷺ وجودی بھی اس کو حاصل ہوتی ہے غرضیکہ جمیع کمالات و صفات محمدیہ ﷺ احمدیہ ﷺ سے فیض یاب ہوتا ہے ۔ یہ فقیری میں بہت اونچا مقام ہے ۔ ولایت محمدی ﷺ والا فقیر خود بھی باکمال ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ جب طالب اس لطیفہ کی سیر کی تکمیل کو پہنچتا ہے تو وہ جو کچھ دیکھتا ہے عین بعین ہو بہو دکھتا ہے ۔ وہ صاحبِ حضور ﷺ ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ عالیہ کا سالک ولایت کے کل مراتب کے حصول کی استعداد رکھتا ہے ۔ اس لطیفہ کا فیض حاصل کرنے والا سالک غلبہ عشق سے بیقرار ہو کر نہایت بیقراری سے عین حضوری میں \” ھل من مزید \” کا شور مچانے والا ہے کہ \” یالیت رب محمد لم یخلق محمد \” تھا مگر پلک جھپکنے کی دیر میں اس حال سے گزر جاتا ہے ۔اور مقام \” ید اللہ فوق ایدیھم ۔\” \” قاب قوسین او ادنی\” پر کون پہنچ سکتا ہے ۔ اس میدان میں لا الہ تک ہزاروں اور لاکھوں پہنچے ہیں ۔ اور الااللہ تک سینکڑوں اور حقیقت محمدﷺ تک کوئی کروڑوں میں ایک پہنچتا ہے ۔ اس مقام میں کلمہ طیبہ کی حقیقت کی آگاہی ہوتی ہے اس لطیفہ میں سیر مع اللہ حاصل ہوتی ہے ۔ فائدہ : لطیفیٰ اخفیٰ سے مراد ذات بحت ( خالص ذات ) مراقبہ ہویت ہے ۔ اس ذات کی توصیف میں سبوح قدوس فرمایا گیا ہے اور \” اللہ الصمد \” اور اس کو \” وراء الوراثم وراء \” کہا جاتا ہے اور یہی ذات صفات و اعتبارات سے مبرا اور قید اطلاق سے منزہ ہے ۔ یہ وہ قدسی ہے جس کے متعلق خود ارشاد ِ باری ہے ۔ الا انہ بکل شی محیط ۔
نوٹ : بقیہ مراقبات کی نیت بھی جلد پوسٹ کی جائے گی۔ باقاعدگی سے وزٹ کرتے رہیں۔ آگے دوستوں میں شئیر کریں ۔ شکریہ
ہر ایک کے لیے بہت قیمتی معلومات ہے۔