قرآن و سنت کی آئینے میں 12 rabi ul awal in quran and hadees
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم و علی آلہ واصحابہ اجمعین
تمام تعریفیں اللہ کریم کے لیے اور بے حد شکر اللہ جل مجدہ کا جس نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو نعمت عظمیٰ احسان عظیم، فضل کبیر اور رحمت عالمین بنا کر مبعوث فرمایا اور ہمیں آپ ﷺ کے امتی ہونے کا شرف عطا فرمایا ۔ فالحمد للہ تعالیٰ علیٰ ذالک حمدا کثیرا طیبا مبارکا علیہ اور بے شمار درود و سلام ہمارے آقا و مولا، ہم پر رؤف و رحیم اور اللہ کے حبیب حضور اکرم ﷺ کی ذات با برکات پر اور آپ ﷺ کے جمیع آل و اصحاب پر جن کی وجہ سے ہی ہدایت کے راستے روشن ہیں۔
میلاد النبی ﷺ کا معنی ہے حضور ﷺ کی پیدائش مبارک۔
محفل میلاد النبی ﷺ کا معنی ہے کہ وہ محفل جس میں حضور اکرم ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے کا ذکر ہو آپ ﷺ کے ان معجزات اور خصوصی واقعات کا ذکر ہو جو حضور ﷺ کی ولادت کے وقت ظہور پذیر ہوئے اور آپ ﷺ کے دیگر معجزات ، سیرت و عادات ، اخلاق و فضائل ، خدا داد عظمت و بڑائی آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کی تاکید آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت اور تعظیم والے قلبی تعلق استوار کرنے اور ان خاص معاملا ت و فضائل کا نعمت و تقریر کی صورت میں بیان ہو جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ کو مخصوص اور تمام مخلوق سے ممتاز فرمایا ہے۔
جشن میلاد النبی ﷺ کا معنی ہے حضور ﷺ کی آمد کے موقع پر خوشی منانا
جلوس میلاد النبی ﷺ کا معنی ہے نہا دھو کر اچھے کپڑے پہن کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نعرہ تکبیر و رسالت لگاتے ہوئے ، نعت و درود پڑھتے ہوئے اور ہر غیر شرعی حرکت سے بچتے ہوئے سڑکوں اور راستوں پر نکلنا اور حضور ﷺ کے فضائل و کمالات کا بیان کرنا اور سننا ۔ میلاد النبی ﷺ، جشن میلاد النبی ﷺ اور جلوس میلاد النبی ﷺ صرف یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ اب ہم قرآن و سنت کی روشنی میں میلاد النبی ﷺ کا بیان کرتے ہیں ۔
12 rabiul awal in quran میلاد النبی ﷺ کا ثبوت قرآن سے
اللہ جل مجدہ قرآن پا ک میں فرماتا ہے \” اور قسم ہے والد ( ابراہیم یا آدم علیہما السلام ) کی اور پیدا ہونے والے محمد ﷺ کی \” ( سورۃ البلد آیت نمبر 3) اس آیت کریمہ میں حضور ﷺ کی ولادت اور پیدائش مبارک کا ذکر فرمایا ہے اور یہی ذکر میلاد النبی ﷺ کے موقع پر ہوتا ہے۔سب سے پہلی محفل میلاد النبی ﷺ اللہ جل مجدہ نے منعقد فرمائی جس کےمتعلق فرمایا\” اے پیارے حبیب وہ وقت یاد کریں \” جب اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام سے پختہ عہد لیا کے جب میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس اس عظمت والے رسول ﷺ کی آمد ہو جائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو
جو تمھارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔ ( سورۃ آل عمران آیت نمبر 81) اس آیت کریمہ میں حضور ﷺ کی آمد، آپ ﷺ کی صفات اور آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے مدد کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور یہی کچھ محفل میلاد النبی ﷺ میں ہوتا ہے۔
12 Rabiul Awal Miladul Nabi in hadees میلاد النبی ﷺ کا ثبوت احا دیث کی روشنی میں
حضور اکرم ﷺ نے خود اپنے میلاد اور صفات کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ! اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بنایا تو مجھے بہتر مخلوق ( انسانوں) میں ( ممتاز ار افضل ) رکھا پھر انسانوں کے قبیلے بنائے مجھے بہترین قبیلے میں ( ممتاز اور افضل) رکھا پھر اللہ تعالیٰ نے گھر بنائے تو مجھے سب سے بہترگھرانے میں( ممتاز ار افضل) رکھا پس میں اپنی ذات اور گھرانے کے اعتبار سے سب سے افضل ہوں ۔ میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے ۔قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھنے والا میں ہوں اس دن سب کا خطیب میں ہوں اس دن نا امیدی میں خوشخبری سنانے والا میں ہوں ۔ اس دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ میں اپنے رب کے ہاں بنی آدم میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں۔ ( ترمذی شریف حدیث نمبر 1541 تا 1544)
آقا کی آمد مرحبا
حضور اکرم ﷺ خود میلاد شریف کے دن کا اہتمام فرماتے ہوئے سوموار کا روزہ رکھتے صحابہ کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا میں سوموار کا روزہ اس لئے رکھتا ہوں کہ میں اس دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر کلام الٰہی نازل ہوا۔ ( مسلم شریف حدیث نمبر 2750 )
حضور ﷺ نے مدینہ منورہ میں اپنی ولادت کی خوشی میں جانور ذبح کئے اور صدقہ کیا( حسن المقصد فی عمل المؤلد صفحہ نمبر 196)
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کے سامنے مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر نعت پڑھتے تو حضور ﷺ فرماتے اے اللہ روح القدس کے ساتھ انکی مدد فرما۔ (مسلم شریف حدیث 6384)
سردار کی آمد
کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور قصیدہ \” بانت سعاد\” مسجد نبوی شریف میں حضور ﷺ کے سامنے پڑھا جب انہوں نے یہ کہا \” اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسول اکرم ﷺ نور ہیں اور نور بانٹنے والے ہیں \” تو رسول اکرم ﷺ نے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کی بات غور سے سنو۔ ( مستدرک للحا کم حدیث نمبر 6479)
مندرجہ بالا احادیث میں حضور ﷺ نے اپنے فضائل و کمالات کا خود ذکر کیا۔ روزہ رکھ کر اور صدقہ کر کے میلاد شریف کا اہتمام فرمایا آپ ﷺ کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نعتیں پڑھیں اور آپ ﷺ کو نور اور نور بانٹنے والا کہا اور حضور ﷺ نے غور سے سننے کا حکم فرمایا یہی کچھ محفل میلاد النبی ﷺ میں ہوتا ہے۔
محفل میلاد النبی ﷺ کا ثبوت عملِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ حجرہ انور سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا تم کس لیے بیٹھے ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم بیٹھے اللہ تعالیٰ کی حمد اور ذکر کر رہے ہیں کہ جس نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی اور یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا۔ حضور ﷺ نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ تمہارے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرشتو ں میں فخر فرما رہا ہے۔ ( مسلم حدیث 6875 نسائی حدیث نمبر 5441)
لجپال کی آمد مرحبا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کچھ صحابہ بیٹھے مختلف انبیا ء کرام علیہم السلام کے درجات و کمالات کا ذکر کر رہے تھے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور عیسیٰ کلمتہ اللہ ہیں اور حضرت آدم صفی اللہ ہیں ( علیہم الصلوۃ و السلام ) اتنے میں حضور ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا یہ تمام حق ہے اور میرے بارے میں سن لو میں اللہ کا حبیب ہوں ۔ ( ترمذی شریف حدیث 1550)
مکی کی آمد مرحبا
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام مل بیٹھ کر حضور ﷺ کا ذکر کرتے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اس محفل میں حضور ﷺ بھی تشریف لاتے اور اپنے فضائل و کمالات کا ذکر بھی فرماتے۔ یہی کچھ محفل میلاد النبی ﷺ میں ہوتا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے ترمذی شریف میں باقاعدہ میلاد النبی ﷺ کا الگ باب باندھا ہے اور لکھا ہے \” باب ماجاء فی میلاد النبی ﷺ \” یعنی میلاد النبی ﷺ کا باب ۔( ترمذی شریف جلد 2 ابواب المناقب صفحہ نمبر 271)
جلوس میلاد النبی ﷺ
سرکار دو عالم ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو خوشی کا بڑا روح پرور سماں تھا۔ حضرت انس اور حضرت برا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں۔ کہ تمام اہل مدین اتنے خوش تھے کہ اس دن سے زیادہ خوشی کا دن اور روشن دن ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ( بخاری شریف حدیث نمبر 2941)
سوہنے کی آمد مرحبا
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے باقاعدہ اسلحہ پہن کر حضور ﷺ کا استقبال کیا یہ نعرے لگائے جا رہے تھے۔ کہ اللہ اکبر ۔ آگئے اللہ کے نبی ﷺ۔ آگئے اللہ کے نبی ﷺ۔ ( بخاری شریف حدیث نمبر 3911)۔ بچے اور بچیاں راستوں اور سڑکوں پر پھیل گئے اور وہ طلع البدر علینا من ثنیات الوداع والی محبت و تعظیم اور خوشی سے لبریز دل نواز نعت پڑھ رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ہم پر چودھویں کا چاند چڑھ آیا ہے۔ ہم پر اس نعمت ِ عظمیٰ اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کا ساری زندگی شکر کرنا لازم ہے۔ ( بہیقی حدیث نمبر 752)
سرکار کی آمد مرحبا
جب حضور ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو مرد اور عورتیں مکانوں پر چڑھ گئے ۔ نو عمر صحابہ اور خدام راستوں پر نکل آئے۔ اور وہ اونچی آواز سے نعرے لگا رہے تھے۔ یا محمد ﷺ یا رسول اللہ ﷺ یا محمد ﷺ یا رسول اللہ ﷺ۔ ( مسلم شریف 7522)۔ اس طرح کا استقبال اس دن بھی ہوا۔ جب حضور ﷺ غزوہ بدر سے بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے ۔ ( سبل الہدیٰ والر شاد جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 64)۔ اور غزوہ تبوک سے واپسی پر بھی ایسا ہی استقبال ہوا۔ ( دلائل النبوۃ للبیہقی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 351 )۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا استقبال صحابہ کرام نے بار بار کیا۔ اسلئے ہر سال میلاد النبیﷺ پر جلوس نکالنا درست ہے۔
مدنی کی آمد مرحبا
مندرجہ بالا احادیث میں سڑکوں اور راستوں پر نکلنے۔ نعرہ ہائے تکبیر و رسالت اور حضور ﷺ کی شان میں نعتیں پڑھنے کا ذکر۔ اور میلاد النبی ﷺ کا جلوس بھی انہی امور پر مشتمل ہوتا ہے۔ حضور ﷺ اللہ کی نعمت عظمیٰ ہیں۔ ( سورۃ ابراہیم آیت نمبر 28)۔ تمام جہانوں کے لئیے رحمت ہیں ( سورۃ انبیا ء آیت نمبر 107) ۔ اور اللہ کا فضل ہیں ( سورۃ الجمعہ آیت نمبر 4 )۔ جب اللہ تعالیٰ کی نعمت، رحمت اور فضل حاصل ہو ۔ تو خوشی منانے کا حکم خود اللہ احکم الحاکمین نے دیا ۔ ( سورۃ یونس آیت نمبر 58)
منٹھار کی آمد مرحبا
مندرجہ بالا آیات و احادیث سے واضح ہو گیا کہ میلاد النبی ﷺ کی محفل کرنا ، جلوس نکالنا اور خوشی کا اظہار کرنا حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے کے عین مطابق ہے اور اسی کے ہم قائل ہیں ۔ اس کے علاوہ اس مبارک موقع پر جو کچھ ہو بھی خرافات اور غیر شرعی حرکات ہیں ان کا میلاد النبی ﷺ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہم تمام خلاف شرع امور سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی تردید کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں اور
مدثر کی آمد مرحبا
درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ تمام غیر شرعی حرکات و رسومات۔ جو میلاد النبی ﷺ کے جشن کے حوالے سے اس مقدس عمل کو بدنام کرتی ہیں۔ ان سب کو چھوڑ دیا جائے۔ مثلا ڈھول، بینڈ ، باجے ، ساز اور گانے اس موقع کے ساتھ قطعا موافقت نہیں رکھتے۔ اور نہ ہی اسلام میں ان امور کی کوئی گنجائش ہے۔میلادالنبی ﷺکی تیاری میں اور میلاد النبی ﷺ کے موقع پر تمام مسلمانوں کو غیر شرعی حرکات سے بچنا لازمی ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری امت میں کچھ لوگ ضرور آئیں گے جو زنا، ریشمی کپڑوں، شراب اور سازوں کو حرام ہونے کے باوجود حلال ٹھہرائیں گے ۔ ( بخاری شریف حدیث نمبر 5590)
ساز گانے اور باجے کی ممانعت
حضور ﷺ نے فرمایا ! ساز باجے شیطان کے مؤذن ہیں۔ ( المعجم الکبیر حدیث نمبر 7837 )
12 rabi ul awal 2022, 2023 hadees ki roshni
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے ساز باجے ، گانے بجانے والے آلات توڑنے اور مٹانے کے لیے بھیجا ہے۔ ( مسند احمد حدیث نمبر 22218) حضور ﷺ ساز باجے مٹائیں اور یہ بجائیں ۔ یہ کیسی ہے محبت ؟ یہ کیسی ہے مسلمانی؟ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس فعل بد اور حضور ﷺ کی مخالفت سے بچائے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ! جس قافلے ( جلوس) میں گھنٹیاں بج رہی ہوں فرشتے اس سے دور ہو جاتے ہیں۔ ( مسلم حدیث نمبر 5546)۔ گھنٹیاں بج رہی ہوں تو فرشتے ان کی نحوست کی وجہ سے دور رہتے ہیں۔ تو جب بڑے بڑے ڈھول اور باجے بج رہے ہوں تو اس وقت کیا حال ہو گا ؟؟
غزو ہ بدر کے روز جب فرشتے مدد کے لیے اُ ترے تھے۔ تو حضور ﷺ نے اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں کاٹ دینے کا حکم فرمایا تھا تاکہ فرشتے آسکیں ۔ ( صحیح ابن حبان حدیث نمبر 4690)۔ میلاد النبی ﷺ کا جلوس ایک ایسا مقدس قافلہ ہوتا ہے۔ جس میں کثرت سے حضور ﷺ کا ذکر ہوتا ہے۔ اس پاکیزہ ماحول میں ڈھول ، ساز، باجے جیسی مکروہ اور نحوست بھری چیزیں نہیں ہونی چاہییں۔ کیونکہ ان کے ساتھ شیطان ہوتے ہیں۔ ( ابو داؤد شریف حدیث نمبر 4232 ) ساز باجوں کے حرام ہونے کے متعلق احادیث حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 149)
hadees about 12 rabi ul awal
حضر ت سیدنا امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ جن کے مجدد الف ثانی ہونے۔ تمام سلاسل طریقت کے جامع اور مسلمہ بزرگ ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ اور جن کا قول ساری امت کے لیے حجت ہے ( ضیاء القرآن جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 59)۔ وہ مکتوبات شریف میں فرماتے ہیں کہ گانے بجانے کے متعلق آیات و احادیث اور فقہی روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا شمار دشوار ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص گانے بجانے کا مباح ہونے کے متعلق کوئی منسوخ حدیث یا شاذ روایت بیان کرے۔ تو اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے ۔
کیونکہ کسی بھی فقیہ مفتی نے کسی بھی زمانے میں کبھی بھی گانے باجے کے جائز ہونے کے متعلق کوئی بھی فتویٰ نہیں دیا. اور صوفیا ء کرام کا عمل کسی چیز کے حلال ہونے یا حرام ہونے میں سند نہیں۔ ( مکتوب نمبر 266 جلد نمبر 1). ڈھول باجے تو حرام ہیں ہی محبوب الٰہی حضرت سیدنا خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ۔ جو کہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے سالار قافلہ ہیں دف کے بارے میں فوائد الفواد میں فرماتے ہیں۔ کہ دف بجانا ہمارے نزدیک جائز نہیں۔ ( فوائد الفواد ملحضا صفحہ نمبر 344)
مزمل کی آمد مرحبا
اور اسی میں ہے کہ مزامیر حرام است یعنی ساز باجے حرام ہیں. ( فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 24 صفحہ نمبر 149 ). اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں. نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والوں کا حضرات اکابرین سلسلہ چشتیہ رحمتہ اللہ علیہم کی طرف مزامیر، سازباجوں کی نسبت کرنا محض جھوٹ ہے ۔
حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا سید فخرالدین زرادی رحمتہ اللہ علیہ اپنے رسالہ \” کشف القناع\” میں فرماتے ہیں. کہ ہمارے مشائخ کرام پر لوگ مزامیر اور ساز باجوں کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں. ہمارے مشائخ کرام ( حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء، خواجہ فریدالدین گنج شکر ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ) اس تہمت سے بری ہیں. ( فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 157 ). تہمت لگانا عام مسلمان پر بھی گناہ کبیرہ ہے. تو اولیاء کرام پر تہمت لگانا اور بھی کتنا بڑا گناہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس وبالِ عظیم سے بچائے۔
12 rabiul awal milad ul nabi in pdf اس پوسٹ کی مکمل پی ڈی ایف فائل اس لنک میں موجود ہے۔ کلک کریں
اس پوسٹ کا بقیہ حصہ بھی جلد پوسٹ کیا جائے گا۔ مطالعہ کا شکریہ ایسی ہی مزید معلومات کے لیے باقاعدگی سے اس ویب سائٹ کو وزٹ کریں. پوسٹ مکمل ہونے کے بعد یہ نوت ہٹا دیا جائے گا اور اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کرتے رہیں۔ شکریہ