بیان اصطلاحات حضرات نقشبندیہ
اب حضرات نقشبندیہ رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کی بیان کردہ بعض خاص اصطلاحوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ ان آداب کی پابندی متوسلین نقشبندیہ کو ضرور کرنی چاہیے ۔
نظر بر قدم
نظر بر قدم سے مراد ہے کہ سالک چلنے میں اپنی نظراپنے قدم پر رکھے ( یعنی نیچی نظر رکھے اور ادھر اُدھر دیکھتا نہ چلے) اس واسطے کہ چلنے کے وقت قسم قسم کی مخصوص چیزوں کی وجہ سے نظر جب پریشان ہوتی ہے اور انتشار پیدا ہوتا ہے تو اس سے جمعیت باطن جاتی رہتی ہے ۔ اگر نظر قدم پر رہے گی تو جمعیت حاصل رہے گی ، انتشار سے محفوظ رہے گا ۔ تفرقہ سے بچنے میں اس کو بڑا دخل ہے۔
ہوش دار ، وقوف زمانی
اس سے مراد یہ ہے کہ سالک ہر سانس میں ہوشیار رہے کہ وہ ذاکر یا غافل ۔ یہ لحاظ آہستہ آہستہ دوام حضور تک پہنچا دیتا ہے، اور اس کی رعایت تفرقہ نفسی کو دفع کرتی ہے۔ اس کو وقوف زمانی بھی کہتے ہیں۔
سفر در وطن
سفر در وطن سیر انفسی کا نام ہے ، جو حصول اندراج النہایۃ فی البدایۃ کا منشا ہے ۔ یہ اس طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ کیونکہ دوسرے طریق میں سیرانفسی سیر آفاقی کے بعد ہے ، اور اس طریقہ میں اسی سیرانفسی سے ابتداء ہوتی ہے اور سیر آفاقی اس سیر کے ضمن میں مندرج ہے ۔ سالک کو چاہیے کہ اپنے نفس میں غور کرے کہ آیا اس میں غیر اللہ کی محبت باقی ہے یا نہیں ، اگر باقی ہو تو از سر نو توبہ کرے اور کلمہ توحید کے لا سے اس کی نفی کرے اور اس کلمہ توحید کی مدامت سے اپنی بری صفات مثلاََ بغض ، حسد، بخل و عداوت کو دور کرے۔
خلوت در انجمن
جب سفر در وطن متحقق ہو گیا تو انجمن کو بھی خلوت خانہ وطن بنائے۔ یعنی انجمن میں تفرقہ متکلم و مخالف نہ رہے اور کسی طرف ملتفت نہ ہو ۔ ابتداءََ اس میں تکلف ہوتا ہے ، بعد کا یہ تکلف جاتا رہتا ہے۔ عین تفرقہ میں جمعیت اور نفس غفلت میں حضور حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی تفرقہ اور عدم تفرقہ سالک کی جمعیت باطن میں برابر ہوتا ہے ۔ اگر ظاہر کو باطن کے ساتھ جمع کرے اور تفرقہ کو ظاہر سے بھی دور کرے تو یہ افضل و انسب ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایسے ہی حضرات کی شان کا بیان ہے \” رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ\” ایسے لوگ بھی ہیں جن کو بیع و شراء اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ بعض اوقات ظاہری تفرقہ سے چارہ نہیں ہوتا۔
یاد کرد
یاد کرد ، اس سے اللہ تعالیٰ کا ذکر مراد ہے ۔ ذکر اسم ذات ہو یا نفی و اثبات ذکر ایسی شے ہے جس سے فنا و بقا حاصل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ تک رسائی ہوتی ہے ۔
ذکر گو ذکر تاترا جان است پاکی دل ز ذکر یزداں است
\” واذکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون ہ\” اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ مراد پاؤ۔ یہ آیت کریمہ مدعائے مذکور پر نص قاطع ہے ۔
باز گشت
باز گشت سے مراد یہ ہے کہ چند بار ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل سے مناجات کرے کہ الٰہی تو ہی میرا مقصود ہے ، اور تیری ہی رضا مجھے مطلوب ہے ، اپنی نعمت مجھ پر فائز فرما اور اپنی درگاہ پاک میں مجھے وصول عطا فرما۔ ذکر کرنے میں یہ بہت مفید شرط ہے اس سے غافل نہ ہونا چاہیے ۔
نگاہ داشت
وساوس و خطرات کا قلب سے دور کرنا نگاہ داشت ہے ۔ سالک کو چاہیے کہ ہوشیار رہے اور دل میں خطرات کو نہ آنے دے، ورنہ ان کا دور کرنا مشکل ہو گا۔ اس طریقہ سے جمعیت اور طمانیت کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔ جب قلب سے خطرہ بالکل زائل ہو جائے تو فنائے قلب حاصل ہوتی ہے۔ رہا دماغ سے خطرات کا اترنا ، تو فنائے نفس کے بعد وہ بھی زائل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد خطرات کے ادراک میں حیرت ہوتی ہے کہ کہاں سے آتے ہیں ۔ ارباب عقول کے نزدیک تو خطرات کا جاتا رہنا معقول نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا طور و طریق عقل سے وراء ہے۔
کار پاکاں راقیاس از خود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر و شیر
آں خیالاتے کہ دام اولیاست
عکس مہرویان بستان خداست
یاداشت
یاداشت اللہ تعالیٰ کے لیے توجہ صرف ہے جو الفاظ اور تخلیات سے مجرد ہو اور حضور بے غیبت ہو۔ یعنی ذات حق تعالیٰ کا علی الدوام وہ حضور جس میں شیون و اعتبارات کا حجاب درمیان میں نہ ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ توجہ حاصل نہیں ہوتی ، مگر فنائے اتم اور بقائے اکمل کے بعد ۔
وقوف عددی
نفی و اثبات میں طاق عدد کی رعایت کرنے کو وقوف عددی کہتے ہیں
وقوف قلبی
وقوف قلب کی طرف توجہ کو کہتے ہیں جو قلب بائیں پستان کے نیچے دو انگل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس توجہ میں وہ راز ہے جو خاندان قادریہ میں ضرب کی رعایت میں ہے ۔